سموگ ,مصنوعی بارش اور اسکے تجربات

پنجاب کے مختلف شہروں میں شدید اسموگ کی وجہ سے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ حکومت نے اس مشکل کا حل تلاش کرنے کے لیےمختلف اقدامات اٹھارہی ہے۔ جس میں مصنوعی بارش پر بھی غور کیا جارہا ہے۔

مصنوعی بارش کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی بارش کیلئے بادلوں کا ہونا ضروری ہے اور اس کیلئے بادلوں کی شناخت کی جاتی ہے۔ بادلوں میں برقی چارجز کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعی بارش برسانے کے عمل کو کلاؤڈ سیڈنگ کہتے ہیں۔

1946 میں جنرل الیکٹرک ریسرچ لیبارٹری کے سائنسدانوں نے کلاؤڈ سیڈنگ کا طریقہ کار دریافت کیا تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ silver iodide اور ڈرائی آئس کا استعمال بادلوں میں برف کے گالے بنانے کے عمل کو بہتر بنا سکتا ہے۔ کلاؤڈ سیڈنگ کے لیے silver iodide اور ڈرائی آئس کا استعمال آج بھی ہوتا ہے مگر یہ طریقہ کار کافی بہتر بنایا گیا ہےیہ عمل ہوا کو صاف کرنے کا مقصد رکھتا ہے، جس سے ہوا کے زہریلے ذرات بارش کے ذریعے منہال کی طرح زمین پر گر جاتے ہیں، جو کہ اسموگ کی سطح کو کم کرتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق بادلوں کی شناخت کے بعد پھر خصوصی ہوائی جہاز سے 2 سے 4 ہزار فٹ کی بلندی سے بادلوں کے اوپر کیمیکل چھڑکا جاتا ہے جس سے بادل بھاری ہو تے ہیں اور بارش ہوتی ہے۔جبکہ مصنوعی بارش اسموگ سے نجات کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ جو کاربن کےاخراج کو کم کرنے، صاف ترین توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے میں اہم ہیں۔پاکستان میں محکمہ موسمیات نے پہلے بھی مصنوعی بارش کے کامیاب تجربات کیے ہیں، جیسا کہ خلیجی ممالک میں عام ہے۔ متحدہ عرب امارات میں سائنسدانوں نے سالٹ فلیئرز کا استعمال کیا ہے، جو سالٹ نانو پارٹیکلز خارج کرتے ہیں۔ یہ نئی ٹیکنالوجی ہے جو بادل متحرک کرتی ہے اور بارش برسا نےمیں مدد فراہم کرتی ہے۔

اس ترکیب کے استعمال سے بہترین نتائج حاصل کرنے کے لیے درست بادلوں کی شناخت اور مناسب وقت پر کیمیکلز کا استعمال ضروری ہے۔یہ تکنیک موسماتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ زرعی اور عام اقتصادی حالات پر بھی اثرات ڈال سکتی ہے، اگرچہ اس کا استعمال اور اس کے اثرات کو بڑے پیمانے پر سمجھنے کیلئے زیادہ تجربہ کی ضرورت ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں