فیکٹ چیک: حکومتی ترجمان سمیت اہم ترین صحافیوں اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے فیک نیوز کی تشہیر، قانون خاموش

وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کی جانب سے گزشتہ شام ہونے والی پریس کانفرنس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف سٹاف ڈاکٹر شہباز گل کے حوالے سے تشدد کی خبروں پر وضاحت دیتے ہوئے ایک ویڈیو چلائی گئی جس میں بظاہر ڈاکٹر شہباز گل جیسے نظر آنے والا شخص ایک ہسپتال کے وارڈ روم میں موجود ہے جبکہ اسلام آباد پولیس کا ایک افسر اس کو مختلف فائلز دکھاتا ہوا نظر آسکتا ہے ویڈیو میں اس شخص کو ہشاش بشاش انداز میں واک کرتے اور بیڈ پر بیٹھتے دیکھا جاسکتا ہے

وزیر اطلاعات کی جانب سے اس ویڈیو کو شئیر کرنے کی دیر تھی کہ سوشل میڈیا پر تمام صارفین کی جانب سے بغیر تصدیق کے اس ویڈیو کو شئیر کرنے کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا عام صارفین کی جانب سے ایسی ویڈیوز کو بغیر تصدیق شئیر کرنا اب معمول بن چکا لیکن ملک کے نامور صحافیوں اور سیاستدانوں کی جانب سے بھی اسی ویڈیو کو شئیر کیا جاتا رہا

جیو نیوز سے وابستہ حامد میر جو ملک میں اعلی پایہ کے صحافی سمجھے جاتے ہیں ان کی جانب سے بھی اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے یہ ویڈیو شئیر کی گئی

خواتین صحافیوں میں ایک اہم نام عاصمہ شیرازی بھی اس کام میں پیچھے نہ رہیں ان کی جانب سے بھی اس ویڈیو کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے شئیر کیا گیا

اے آر وائے سے ایک لمبے عرصے تک وابستہ رہنے والے ڈاکٹر دانش کے نام سے بنائے گئے ایک اکاؤنٹ سے بھی اسی ویڈیو کو شئیر کیا گیا ان کی جانب سے لکھا گیا کہ “‏شہباز گل کو پتاہوتا ہے کہ انکی Videoبن رہی ہےتو وہ اتنےآرام اورسکون سےکھڑے ہوکر فائل کامطالع نہ کررہےہوتے بلکہ سانس لینے کی بڑی شکایت سامنے آتی روتے ہوئے
کیاکوئی کہہ سکتاہےvideoوالےشخص کےساتھ حالیہ بدترین تشدد ہواہے
جھوٹ جھوٹ ہوتا ہے بینقاب ہوتا خان صاحب کا جھوٹ بے نقاب”

سلسلہ یہاں رکا نہیں رضا رومی سمیت سنئیر ترین صحافیوں کا ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم نیا دور اردو بھی اس جھال میں پھنس گیا اور ان کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے بھی اس ویڈیو کو شئیر کیا گیا

ٹویٹر پر ایکسپوز پراپیگنڈہ نامی اکاؤنٹ بظاہر خود ایک پراپیگنڈہ کا حصہ بنا اور ان کی جانب سے اس ویڈیو کو شئیر کرتے ہوئے لکھا گیا کہ “‏شہباز گل کی جیل سے وڈیوز اور تصاویر جاری کردی گئیں۔ وڈیوز میں شہباز گل بلکل ہشاش بشاش نظر آرہے ہیں۔ بظاہر انکی وڈیوز کو دیکھ کر تشدد اور زیادتی کی نفی ہورہی ہے”

جونیئر یا بظاہر غیر معروف سمجھے جانے والے صحافیوں اور اکاونٹس کی نہ ختم ہونے والی فہرست الگ لیکن یہاں بظاہر سنئیر اور معتبر سمجھے جانے والے صحافیوں کی اس ویڈیو پر ٹویٹس گننا بھی مشکل رہا، عمار مسعود جو کہ سئنیر صحافی ہیں ان کی جانب سے بھی اسی ویڈیو کو اپنی وال کی ذینت بنایا گیا انہوں نے یہ بھی لکھا کہ “شہباز گل کا جھوٹ پکڑا گیا”

اردو نیوز سے وابستہ شاہد عباسی کی جانب سے بھی اس ویڈیو کو بغیر تصدیق کے شئیر کیا گیا

انصار عباسی جو ملک کے نامور تفتیشی صحافی سمجھے جاتے ہیں ان کی جانب سے بھی اس ویڈیو کی شئیرنگ میں اپنا حصہ ڈالا گیا

جیو نیوز لندن سے وابستہ مرتضی علی شاہ کی جانب سے بھی ویڈیو کو اپلوڈ کیا گیا

دوسری جانب سیاسی رہنماء جو اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد پھولے نہ سمائے ان کی جانب سے بھی دھڑا دھڑ اس ویڈیو پر اپنے تنزیہ جملوں کا سہارا دیتے ہوئے اپنی وال پر اپلوڈ کر دیا گیا

مسلم لیگ ن کی رکن اسمبلی پنجاب نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے اسے فراڈ لکھا

مسلم لیگ پنجاب کی سیکرٹری اطلاعات اور رکن اسمبلی عظمی شاہ بخاری نے بھی اس ویڈیو کو اپنے اکاؤنٹ سے ٹویٹ کیا

مریم نواز کی جانب سے ایسے تمام ٹویٹس کو اپنے وال پر شئیر کرتے ہوئے ویڈیو کو اپنے لاکھوں فالورز تک پہنچایا گیا

ایک ہی روز میں لاکھوں صارفین اور معتبر سیاسی و صحافتی ناموں کی جانب سے ویڈیو شئیر کی گئی تاہم فیکٹ چیک کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ وہ ویڈیو کسی اور شخص کی ہے جس کے گرافکس میں بذریعہ موبائل ایپ تبدیلی کرتے ہوئے اسے بظاہر شہباز گل ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ شہباز گل پر تشدد کے پی ٹی آئی کے الزامات کو رد کیا جاسکے

پاکستان میں فیک نیوز کے ذریعے پراپیگنڈہ کرنا اور عوام کو گمراہ کرنا ایک آسان اور عام عمل مانا جاتا ہے، شہباز گل کے حوالے سے وائرل ہونے والی فیک ویڈیو کا ماخذ حکومت پاکستان کی ترجمان ہیں تاہم بعد میں بھی صحافیوں اور سیاستدانوں کی جانب سے اپنی اپنی سیاسی وابستگی کو مدنظر رکھتے ہوئے بغیر غور کیے شئیر کیا جاتا رہا

پاکستان میں فیک نیوز کو ختم کرنے کے حوالے سے قوانین نہ ہونے کے برابر ہیں گزشتہ حکومت میں فواد چوہدری کی جانب سے فیک نیوز کے خلاف قانون سازی کی کوشش کی گئی جو اپوزیشن جماعتوں اور صحافتی تنظیموں کے احتجاج کے باعث عملی شکل نہ اختیار کر سکے

اپنا تبصرہ بھیجیں