ڈوبتا پاکستان اور ہمارا بے حس میڈیا و حکومت: بے نظیر لاشاری کی تحریر

(بے نظیر لاشاری) جہاں ایک طرف سندھ میں بارشوں سے ہر جگہ تباہی کے مناظر ہیں وہیں بلوچستان کے احوال بھی بتانے کے قابل نہیں، قدرتی آفات کا آنا ایک قدرتی مظہر ہی ہے لیکن اس صورت حال میں انسانوں اور حکومتوں کے چہرے نے نقاب ہونا یقینی ہو جاتا ہے، حالیہ تباہ کاریوں میں پاکستان ہی کے شہری بلوچستان، جنوبی پنجاب اور سندھ کے متاثرہ علاقوں میں نظر دوڑائیں، آپ کو بے بسی کے علاوہ شائد دوسرے کوئی جذبات نہ محسوس ہوں لیکن جب آپ حکومت اور میڈیا کی ترجیحات کو دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے

ہمارے میڈیا کے لیے اس وقت شہباز گل کی رہائی اور اس کے ہسپتال کے چکر زیادہ اہم ہیں بجائے بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب میں سیلابی پانی میں تیرتی لاشوں اور زندگی بھر کی بہتی جمع پونجی سے، یوں لگتا ہے کہ حکومت پاکستان کے لیے عمران خان کی گرفتاری سے بڑا کوئی مسئلہ نہیں جس ہر دن رات سر جوڑے جاتے ہیں لیکن سیلاب زدگان کے لیے ابھی تک کوئی خاطر خواہ امدادی سرگرمیوں کا آغاز تک نہ ہوسکا، کبھی کبھار سوچتی ہوں کیا ہم بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے اسلام آباد کے پورش ایریا میں رہنے والے باسی جن کی خاطر ذرا سی بوندیں برسنے کے بعد ریسکیو، سی ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ کی ٹیمیں ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر امدادی کاموں میں حصہ لیتی ہیں

سوال تو میرے اس ملک کے شہریوں سے بھی ہے جو سیاسی جلسوں میں اپنے خاندانوں کے ہمراہ جیب سے پیسے لگا کر پہنچتے ہیں سیاسی رہنماؤں کی ایک کال پر کروڑوں روپے کی فنڈنگ دیتے ہیں لیکن جب سوشل میڈیا پر کبھی سیلابی پانی میں ڈوبتے اپنے ہی بھائیوں کے خواب نظر آئیں تو نظریں چرا کر آگے نکل جاتے ہیں، کدھر ہے ملک ریاض اور کدھر ہے میاں منشا جو سیاسی مفادات کی خاطر تو سیاسی میدان جنگ میں پورے ہتھیاروں کا بجٹ فراہم کرتے ہیں لیکن جب آدھے سے زیادہ پاکستان ڈوب رہا تب شائد ان کو خواب غفلت سے جگانے والا ہی کوئی نہیں

اس ملک کی ترجیحات پر تو پوری دنیا بھی ہنس رہی ہے جہاں پورا دن میڈیا پر ہر ہیڈ لائن میں شہباز گل کی ایک ایک لمحے کی خبروں کی بھرمار ہے لیکن سیلاب زدگان کے لیے نہ ہی کسی سرخی میں جگہ بن سکی نہ ہی کسی ٹکر میں۔

لیکن سلام ہے میرے مصیبت میں گھرے سیلاب زدگان کو بھی جو اس آفت زدہ صورتحال میں بھی ریاست کے لیے ایک برا لفظ تک کہنے کو تیار نہیں وہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے اپنے بچے اپنا گھر بار سب لٹا دیں گے کہ ریاست پاکستان سے شکوہ نہیں کریں گے اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاست پاکستان کو اپنے ان بظاہر نظر انداز کیے گئے شہریوں کی یاد کب آتی ہے

کب بلاول کب عمران کب زرادی کب شہباز کب الہی کب فضل الرحمن اور باقی نام نہاد قومی رہنماء اپنے گرم بستر چھوڑ کر ان سیلاب زدگان کے دکھ میں شریک ہونے کے لیے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہیں انتظار تھا انتظار ہے انتظار رہے گا

2 تبصرے “ڈوبتا پاکستان اور ہمارا بے حس میڈیا و حکومت: بے نظیر لاشاری کی تحریر

اپنا تبصرہ بھیجیں