پاکستان میں 2 کروڑ 62 لاکھ سے زائد بچے سکول سے باہر، پی آئی ای رپورٹ جاری

وفاقی سیکرٹری تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت محی الدین وانی نے پاکستان انسٹیٹوٹ آف ایجوکیشن (پی آئی ای) کی غیر رسمی تعلیم کے اعداد وشمار پر مبنی رپورٹ 2021-22 کا جمعرات کو باقاعدہ اجراء کر دیا ہے ۔ملک بھر بشمول آزادجموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے 27 ہزار 763 مراکز میں 9لاکھ 19 ہزار 128 طلباء کا اندراج ، 2لاکھ 96 ہزار 843 طلباء کی مین سٹریم میں لایا گیا ۔

مجموعی طور پر غیر رسمی تعلیم میں رجسٹرڈ طلبہ و طالبات میں سے 59 فیصد لڑکیاں ہیں، جن میں سندھ سے لڑکیوں کی رجسٹریشن کی شرح سب سے زیادہ (73 فیصد)جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں یہ شرح (51 فیصد) ہے۔ پنجاب میں غیر رسمی تعلیم میں رجسٹرڈ طلبہ و طالبات کی تعداد سب سے زیادہ (46 فیصد) جبکہ آزاد کشمیر اور اسلام آباد میں یہ تعداد (2 فیصد) ہے۔79فیصدغیر رسمی تعلیمی مراکز مشترکہ تعلیم کے مراکز ہیں، جس نے لڑکیوں کی رجسٹریشن کی شرح کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوئی ہے، نتیجتاً یہ شرح گزشتہ رپورٹنگ مدت کے 54 فیصد سے بڑھ کر 59 فیصدتک پہنچ گئی ہے۔ غیر رسمی تعلیمی اداروں میں 27,763 اساتذہ میں سے 81 فیصدخواتین ہیں۔ اسلام آباد میں 87 فیصد اور گلگت بلتستان میں یہ شرح (65 فیصد) ہے۔

وفاقی سیکرٹری وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت محی الدین وانی نے کہا کہ نئی نسل کو تعلیم اور پیشہ وارنہ تربیت سے آراستہ کرنے کے لئے ہمیں روائتی ٹیچنگ سے باہر نکل کر ٹیکنالوجی سے مکمل استفادہ حاصل کرنا ہوگا ۔ انہوں نے پاکستان انسٹیٹوٹ آف ایجوکیشن کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پی آئی ای نے ایک سال کے دوران تعلیم کے شعبے میں کمزوریوں ، مسائل اور مشکلات کے حوالے سے متعدد رپورٹس کا اجراء کیا ہے ۔ پی آئی ای کی ڈیٹا پر مبنی رپورٹس سے وزارت تعلیم بھرپور استفادہ حاصل کریگی ۔ انہوں نے کہا کہ غیر رسمی تعلیم کے حوالے سے جہاں بنیادی تعلیم کے حصول کی شرح میں اضافہ ہوگا وہی پر سکولوں سے باہر بچوں کو تعلیم تک رسائی بھی ممکن ہوسکے گی ۔ انہوں نے کہا کہ سماجی اور تکنیکی ہنر سے ہی ہم نئی نسل کو مفید اور باوقار شہری بنا سکتے ہیں ۔

ڈائریکٹر جنرل پاکستان انسٹیٹوٹ آف ایجوکیشن ڈاکٹر محمد شاہد سرویہ نے کہا کہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن (پی آئی ای) نے جائیکا کے ساتھ مل کر غیر رسمی تعلیم مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (این ایف ای۔ایم آئی ایس) قائم کیا ہے۔جس کی مدد سےغیر رسمی تعلیم کا مصدقہ ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے ۔اس ڈیٹا میں سیکھنے والوں کی معلومات، اساتذہ کی تفصیلات، تعلیمی مراکز، تعلیمی کارکردگی، حاضری کے ریکارڈ، سیکھنے والوں کی ٹریکنگ، اسکول سے باہر رہ جانے والے بچوں (او او ایس سی) کی حیثیت اور مرکز کی نگرانی شامل ہے ۔انہوں نے کہا کہ رپورٹ کا مقصد قانون سازوں ، پالیسی سازوں، ماہرین تعلیم ، تحقیق کرنے والوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو واضح تصویر پیش کرنا ہے۔

غیر رسمی تعلیم کی شماریاتی رپورٹ کے مطابق این سی ایچ ڈی اور بی ای سی ایس کے زیرِ انتظام غیر رسمی تعلیمی مراکز کو سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کرنے کے بعد تقریباً 296,843 طلبہ و طالبات کو عام تعلیمی نظام میں شامل کر لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 94 فیصد غیر رسمی تعلیمی مراکز اسکول سے باہر رہ جانے والے بچوں کے لیے ہیں جبکہ باقی فیصد مراکز نوجوانوں اور بالغوں کی خواندگی کے لیے وقف ہیں۔ کل این ایف بی ای/اے ایل پی مراکز میں سے 98 فیصد پرائمری سطح کے ہیں جبکہ صرف 2 فیصد مڈل لیول کے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پرائمری سطح پر این ایف بی ای/اے ایل پی مراکز سے فارغ التحصیل ہونے والے بچوں کو مڈل لیول تک تعلیم جاری رکھنے کے مواقع کم ملتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اے ایل پی (مڈل ٹیک) ایک نیا تعلیمی سلسلہ ہے جسے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے جیکا-اقال کے تعاون سے تیار کیا ہے ، اسے پورے ملک میں ہائبرڈ انداز میں رائج کیا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ کل غیر رسمی تعلیمی سیکھنے والوں میں سے 0.3 فیصد پناہ گزین ، ریاست سے بغیر وابستگی رکھنے والے بچے ہیں (4فیصد)۔ غیر ملکی طلبہ و طالبات میں سے 96 فیصد افغان پناہ گزین ہیں جبکہ ریاست سے بغیر وابستگی رکھنے والے بچوں میں سے صرف 4 فیصد بنگالی اور برمی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی طرح رپورٹ کے مطابق کل رجسٹرڈ طلبہ و طالبات میں سے 2 فیصد غیر مسلم ہیں اور ان میں سے 86 فیصد ہندو اور 14 فیصد مسیحی ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ غیر مسلم طلبہ و طالبات میں سے 36 فیصد لڑکیاں ہیں۔

رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ غیر رسمی تعلیم میں رجسٹرڈ طلبہ و طالبات میں سے 81فیصد سرکاری شعبے کی غیر رسمی تعلیمی تنظیموں سے رجسٹرڈ ہیں جبکہ باقی 19 فیصد نجی یا ترقیاتی شعبے کی تنظیموں سے رجسٹرڈ ہیں۔ غیر رسمی تعلیم کے شعبے میں تقریباً 71 تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جن میں سے سرکاری شعبے کے محکمے اور ڈائریکٹوریٹ بڑے پیمانے پر کام کرتے ہیں اور فنڈز کا بڑا حصہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، تمام بچوں کو تعلیم کے حق کو یقینی بنانے میں نجی یا ترقیاتی شعبے کے تعاون کو بھی سراہنے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں