کونسل میٹنگ میں کسی ایک ممبر نے بھی پاسنگ پرسینٹیج کم کرنے کی حمایت نہیں کی، صدر PM&DC

بیرون ملک سے ایم بی بی ایس کرنے والے پاکستانی سٹوڈنٹس کے پاکستان میں لائسنس امتحان این آر ای کی پرسینٹیج میں کمی کے ایجنڈے پر چئیرمین سینیٹر ڈاکٹر ہمایوں مہمند کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا اہم اجلاس آج پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں سینیٹر پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج، سینیٹر روبینہ خالد، سینیٹر فوزیہ ارشد، سینیٹر ثناء جمالی، سینیٹر جام مہتاب، سینیٹر زرقا سہروردی اور سینیٹر اسد علی جونیجو نے شرکت کی

اجلاس میں پی ایم ڈی سی کی جانب سے صدر پی ایم ڈی سی ڈاکٹر رضوان تاج اور رجسٹرار ڈاکٹر اظہر شاہ سمیت ایڈیشنل سیکرٹری وزارت صحت اور نگران وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان کی جانب سے بھی شرکت کی گئی

فارن میڈیکل گریجوایٹس کی نمائندگی کے لئے جسٹس فار ایف ایم جیز کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر منیب احمد اور دیگر ایف ایم جیز بھی اجلاس میں موجود تھے

اجلاس میں ایجنڈے کا آغاز کرتے ہوئے چئیرمین کمیٹی سینیٹر ڈاکٹر ہمایوں مہمند نے پی ایم ڈی سی حکام سے سوال کیا کہ اگر این آر ای کی 70 فیصد پرسینٹیج زیادہ اور 50 کم ہے تو آپ 60 فیصد تک کیوں نہیں اتفاق کر لیتے؟ جس پر صدر پی ایم ڈی سی ڈاکٹر رضوان تاج کا کہنا تھا کہ پچھلے تین سال سے کبھی آدھا کبھی تھوڑا بہت کام ہوتا رہا لیکن ہم نے اس حوالے سے ایک نظام اور ڈوزئیر تیار کیا پھر ہم نے تمام کالجز کی ٹریننگ کروائی ان چیزوں کی طرف کبھی کسی نے توجہ نہ دی

انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایف ایم ای کو ہم نے یہ دوزئیر دی، اس حوالے سے پوری دنیا میں 5 انسپکٹر ہیں جو آ کر ہماری ایک ایک چیز کو دیکھیں گے

انہوں نے کہا کہ این آر ای کی پرسینٹیج 70 فیصد ہم نے نہیں کی پہلی کونسل کے نائب صدر خورشید صاحب نے پریشر میں آکر یہ 50 فیصد کر دیا تھا تاہم وہ صرف ایک دفعہ کے لیے تھا اور وہ پی ایم سی میں تھا

صدر پی ایم ڈی سی نے مزید کہا کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے 20 فیصد کا اتنا بڑا گیپ کیسے ختم کر دیا لیکن ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا

چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ پی ایم سی تو 2022 میں اڑا دی گئی تھی اس دوران جو نئے ممبران آئے وہ درحقیقت پی ایم ڈی سی کے لوگ تھے جس کو اینٹرم بنیادوں پر تعینات کیا گیا تھا، کیا آپ کے پاس خود احتسابی کا عمل نہیں؟

ایڈیشنل سیکرٹری صحت نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے پاس خود احتسابی کا عمل نہیں دیکھا جاتا، ہمیں بہت سارے فیصلے پریشر میں بھی کرنے ہوتے ہیں اب بھی ہم پر بہت ساری چیزوں کے لیے پریشر ہے

انہوں نے کہا کہ پاسنگ پرسینٹیج 70 فیصد رکھنے کی سب سے بڑی وجہ اکیڈمک کونسل کی سفارشات تھیں، لوکل ڈاکٹرز بننے والوں کا میٹرک انٹر ایم ڈی کیٹ کا سکور 80 فیصد سے زائد ہوتا ہے لیکن باہر جانے والوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا یہ یہاں پیپر نہیں پاس کر پاتے اور باہر چلے جاتے ہیں

سینیٹر روبینہ خالد نے سوال کیا کہ کیا یہ بچے بغیر ایف ایس سی کے ہی ملک سے باہر چلے گئے؟

چئیرمین صحت کمیٹی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک بہت بڑے پاکستانی بزنس مین نے بیرون ملک ایک میڈیکل کالج کھولا انہوں نے باہر ہزاروں بچوں کو پڑھایا لیکن ان کو ٹرین نہیں کیا، ایجنٹس پہلے سٹوڈنٹس کے داخلے کرواتے ہیں اور بعد میں ان کو پاکستان کے سسٹم میں زبردستی داخل کرواتے ہیں، جس بندے نے جس ملک سے ایم ایم بی ایس کیا اس کو اس ملک کا میڈیکل لائسنس پہلے پاس کرنا چاہیے بعد میں پاکستان آکر لائسنس کا مطالبہ کرنا چاہیے

سینیٹر پروفیسر ڈاکٹر مہر تاج کی جانب سے کہا گیا کہ یہ بچے اپنی خوشیوں سے باہر نہیں جاتے، جب کوئی یہاں کے پرائیویٹ میڈیکل کالج کی فیس نہیں دے پاتا تو وہ کہاں جائے؟؟؟

انہوں نے کہا کہ مجھے آپ کے 80 فیصد والے فارمولے کی سمجھ نہیں آتی میں یہاں 40 سال سے بطور پروفیسر پڑھا رہی ہوں بیرون ملک تمام میڈیکل کالجز ایک جیسے نہیں ہیں انڈیا والے اور آسٹریلیا والے 50 فیصد پر بچوں کو لائسنس دے رہے، انڈیا والے آسمان پر پہنچ گئے ہیں اور ہم ڈاکٹرز کو پاگل بنا رہے ہیں

انہوں نے پی ایم ڈی سی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جس نے 70 فیصد پاسنگ پرسینٹیج کا فارمولہ بنایا کیا وہ خود یا اس کے بچے 70 فیصد پاسنگ پرسینٹیج کا امتحان پاس کر سکتے ہیں؟؟؟

چئیرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ اڑھائی لاکھ بچوں نے ایم ڈی کیٹ دیا 50 ہزار پاس ہوسکے میرٹ 90 فیصد سے اوپر جاتا ہے اور انہیں چند بچوں کو داخلہ ملتا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟

صدر پی ایم ڈی سی نے کہا کہ 19 ستمبر کو کونسل میٹنگ میں فیصلہ ہوا، کسی ایک ممبر نے بھی پرسنٹیج کم کرنے کی حمایت نہیں کی، ہمارے ساتھ یہ لوگ بطور ہاؤس آفیسر ڈیوٹی کرتے ہیں یہ اپ ٹو دا مارک نہیں ہیں یہ پبلک سیفٹی کا مسئلہ ہے

اس موقع پر سیکرٹری جنرل جسٹس فار ایف ایم جیز ڈاکٹر منیب احمد نے کمیٹی اراکین کو بتایا کہ گزشتہ چند سالوں میں ہر سال اس طرح میڈیکل ریگولیٹری باڈی کی پالیسز کا تسلسل ٹوٹنا بین الاقوامی سطح پر بھی باعث تشویش ہے، دیگر ممالک کی مانند اگر پاکستان میں بھی یونیفارم پالیسی بنا دی جائے تو میڈیکل گریجوایٹس کے مسائل حل ہوسکتے ہیں

بعد ازاں ڈپٹی چئیرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی کی جانب سے صدر پی ایم ڈی سی ڈاکٹر رضوان تاج اور رجسٹرار ڈاکٹر اظہر شاہ کو طلب کیا گیا، ملاقات میں پیٹرن انچیف جسٹس فار ایف ایم جیز ڈاکٹر زیشان نور ملک اور سینیٹر روبینہ خالد بھی موجود تھیں، اس موقع پر ڈپٹی چئیرمین سینیٹ نے اس بات پر زور دیا کہ پاسنگ پرسینٹیج بہت زیادہ ہے ادارہ اس کو کم کرنے پر غور کرے جس پر صدر پی ایم ڈی سی نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ اگلے سال ممکنہ طور پر پرسینٹیج کم کرنے کے حوالے سے تجاویز کو زیر غور لایا جائے گا تاہم اس سال پہلے سے ہونے والے امتحانات پر پالیسی کا اطلاق ممکن نہیں

ڈاکٹر زیشان نور ملک نے صدر پی ایم ڈی سی کو ڈاکٹرز کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ پی ایم ڈی سی بیرون ملک موجود میڈیکل کالجز کے حوالے سے واضع پالیسی کا اعلان کرے تاکہ باہر سے پڑھنے والے بچوں کا ایجنٹس کے ہاتھوں استحصال بند ہوسکے اور ان کو واپس آکر لائسنس کے حصول میں آسانی ہو جس پر رجسٹرار پی ایم ڈی سی نے جلد ہی واضع پالیسی سامنے لانے کی یقین دہانی کروا دی

اپنا تبصرہ بھیجیں