اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سکینڈل میں کتنا سچ کتنا جھوٹ؟

سوشل میڈیا پر جہاں ایک طرف ملک کی سیاسی صورتحال پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے وہیں دوسری جانب بہاولپور یونیورسٹی کے حوالے سے بھی صارفین متعدد سوالات ذہنوں میں لیے تبصرے کرتے نظر آتے ہیں

ایک طرف جہاں پولیس کی جانب سے اسے ایک مضبوط مقدمہ قرار دیا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ کیسز یونیورسٹی ملازمین کے خلاف ایک من گھڑت مہم کا حصہ ہیں

اب سوال یہ ہے کہ اس سکینڈل میں کوئی حقیقت ہے یا نہیں؟؟؟

ایم این بی اردو کی تحقیقات میں یہ معلوم ہوا کہ حال ہی میں پولیس کی جانب سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ایک عہدیدار کے موبائل فون سے مبینہ فحش ویڈیوز برآمد کی گئی جس کے بعد انکشافات کی ایک لمبی فہرست نے کیس کو نیا موڑ دے دیا

اس حوالے سے بہاولپور پولیس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ایک اہلکار کے موبائل فون سے ’لڑکیوں کی کم از کم 400 فحش ویڈیوز اور تصاویر برآمد ہوئی ہیں جس میں ان کی جانب سے ٹیچرز اور یونیورسٹی کے دوسرے عملے کے ساتھ اچھے سی جی پی اے کے وعدوں پر مختلف غیر اخلاقی مواد شئیر کیا گیا تھا

اس حوالے سے پولیس کی جانب سے جب تصاویر اور ویڈیوز کی فرانزک رپورٹ تیار کروائی گئی تو مزید کارروائی آگے بڑھی جس کی بنیاد پر مزید تین اہلکاروں کے خلاف آئس رکھنے کے الزام میں تین مختلف مقدمات درج کرتے ہوئے ان کو بھی حراست میں لے لیا گیا

مزید تحقیقات پر انکشاف ہوا کہ اسی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر کو آئس رکھنے کے الزام میں دو ماہ پہلے گرفتار کیا گیا جنھیں بعد ازاں ضمانت پر رہائی مل گئی تھی جبکہ پولیس کی جانب سے اسی الزام میں دو مزید اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے

نہ صرف اتنا بلکہ سپیشل برانچ کی جانب سے جاری کردہ خصوصی رپورٹ میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ منشیات کے الزام میں گرفتار دونوں عہدیدار یونیورسٹی میں نہ صرف طالبات بلکہ اساتذہ کو بھی بلیک میل کرنے اور ان کے جنسی استحصال میں ملوث تھے

گرفتاری کے بعد ملزمان کے موبائل کی جانچ پر منشیات سپلائی اور خریدنے میں ملوث کچھ سٹوڈنٹس کے بھی نام سامنے آئے

اس حوالے سے تحقیقات سے پتا چلا کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے 11 طلبہ کا مجرمانہ ریکارڈ پہلے سے ہی
موجود ہے اور وہ منشیات فروشی میں ملوث بھی پاۓ گئے ہیں، نہ صرف اتنا تحقیقاتی رپورٹ میں منشیات کی خرید و فروخت کے لیے موبائل فون پر بھیجے جانے والے پیغامات اور خواتین کی قابل اعتراض تصاویر کے اسکرین شاٹس بھی شامل ہیں۔

تاہم یونیورٹسی انتظامیہ نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے انھیں ایک ’منظم سازش‘ اور ’انتقامی کارروائی‘ قرار دیا ہے۔

کہتے ہیں کہ ’ایسا کچھ بھی نہیں ہے، یونیورسٹی کا میڈیا ٹرائل نہ کیا جائے۔‘

یونیورسٹی حکام کے خلاف پولیس کی کارروائی کے ردعمل میں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) ڈاکٹر عثمان انور کو خط لکھ دیا۔جس میں کہا گیا کہ یونیورسٹی عہدیداران کے خلاف مقدمات ’بوگس‘ ہیں۔

ایک اور خط میں آئی جی سے درخواست کی گئی کہ وہ گرفتاریوں کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی انکوائری ٹیم تشکیل دیں۔انہوں نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے بھی استدعا کی کہ وہ عدالتی تحقیقات کا حکم دیں کیونکہ یہ کارروائی یونیورسٹی کے خلاف کی جارہی ہے جس سے یونیورسٹی کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں