کورونا کے ایام میں انٹر بورڈ چئیرپرسنز کمیٹی کی سفارشات پر تمام تعلیمی بورڈز کی جانب سے امپروومنٹ امتحانات کے حوالے سے پالیسی پر نظر ثانی کی گئی تھی جس کے تحت فیڈرل بورڈ نے تمام سٹوڈنٹس کو غیر مشروط طور پر آئندہ چار سال کے لیے امتحانات میں حاضر ہونے کی اجازت دی تھی تاہم پنجاب ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے صرف 50 فیصد سے کم نمبرز لینے والے سٹوڈنٹس کو ہی اجازت دی گئی تھی
اس پالیسی پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے سٹوڈنٹس میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والی باہمت نفر فاطمہ نے ہمت نہ ہاری اور پنجاب حکومت کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کر لیا، نفر فاطمہ نے محمد وقاص سیفی اور دیگر سٹوڈنٹس کے ہمراہ کیس میں موقف اختیار کیا کہ ان کو بھی دیگر صوبوں کی طرح امپروومنٹ کے چانسز دئیے جائیں تاکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے سٹوڈنٹس کی حق تلفی نہ ہو
طالبہ کی پٹیشن پر فیصلہ کرتے ہوئے عدالت کی جانب سے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو ہدایات دی گئیں کہ وہ معاملے پر نظر ثانی کریں جس پر پنجاب بورڈز کمیٹی آف چئیرمین کی جانب سے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا
نوٹیفکیشن کے مطابق طالبہ نفر فاطمہ کی پٹیشن پر پی بی سی سی کی جانب سے 16 نومبر 2022 کو میٹنگ کا انعقاد کیا گیا جس میں مارکس پالیسی کے حوالے سے طالبہ کی جانب سے پنجاب حکومت کے خلاف کیس کا جائزہ لیا گیا
پی بی سی سی کی جانب سے جاری احکامات کے مطابق 31 مارچ 2022 کا امپروومنٹ چانسز کے حوالے سے نوٹیفکیشن معطل کر دیا گیا، نئی پالیسی کے مطابق سٹوڈنٹس امپروومنٹ کے لیے اپنی مرضی کے چانسز حاصل کر سکیں گے، احکامات کا اطلاق 2019 میں میٹرک انٹرمیڈیٹ کرنے والے سٹوڈنٹس اور بعد والوں پر ہوگا