اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین سے بارہ کہو بائی پاس کے معاملے پر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی جانب سے اکیڈمک کونسل ممبران کے ہمراہ نیوز کانفرنس و احتجاجی مظاہرہ کیا گیا
انہوں نے کہا کہ بھارہ کہو بائی پاس منصوبہ عجلت میں پاس کیا گیا, یونیورسٹی کی زمین پر بائی پاس سڑک بنائی جارہی ہے اور بغیر مشاورت یونیورسٹی کی باونڈری وال توڑی گئی,
انہوں نے کہا کہ وی سی اپنے مفادات کے لیے خاموش ہے, بائی پاس سڑک سے یونیورسٹی دو حصوں میں ہوجائے گی جس سے اصول تعلیم و تحقیق کا عمل متاثر ہوگا
پریس کانفرنس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ قائداعظم یونیورسٹی ہمارے آنے والی نسلوں کا مستقبل ہے، حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے، بارہ کہو فلائی اوور منصوبہ بنا کر ٹریفک کا رش کم کیا جاسکتا تھا، قائد اعظم یونیورسٹی کو دو حصوں میں تقسیم نہیں ہونے دیں گے، سی ڈی اے نے جو متبادل جگہ دی وہ یونیورسٹی سے پانچ کلومیٹر دور پہاڑوں میں ہے وہ جگہ کسی صورت اس زمین کا نعم البدل نہیں ہوسکتی ہے
انہوں نے مزید کہا کہ قائداعظم یونیورسٹی کی زمین زبردستی چھینی گئی ہے قائد اعظم یونیورسٹی کی زمین آنے والی نسلوں کی ہے اس زمین پر بچوں کے ہاسٹل, لیبارٹریز, نئے ڈیپارٹمنٹ بننے چاہیں 1967 میں جس مقصد کے لیے یہ زمین یونیورسٹی کو دی گئی تھی
انہوں نے کہا کہ یہ سڑکوں کے لیے نہیں دی گئی تھی, پہلے سے مری روڈ موجود ہے ,جس پر اوور پاس بنانے کی ضرورت ہے بھارہ کہو تاجر برادری نے مری روڈ قبضہ کیا ہوا ہے جو اوور پاس نہیں بننے دے رہے
انہوں نے الزام لگایا کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ حکومت کے ملی ہوئی یے
قائد اعظم انتظامیہ نے ملی بھگت اور سستی شہرت کے کیے یونیورسٹی کی زمین سے بائی پاس بنانے کی اجازت دے دی ہے قائد اعظم یونیورسٹی جے ٹیچرز سٹوڈنٹس اور آنے والی نسلوں کا بے انتہا نقصان ہوگا اس زمین سے سڑک گزرنے سے یونیورسٹی دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گی عدالت کو پاکستان مفاد سامنے رکھنا ہے اور دباو میں نہیں آئے گی تو ہمارے حق میں فیصلہ دے گی
عوام کا فائدہ اسی میں یے کہ اس یونیورسٹی کو توڑا نہ جائے یہ زمین قائد اعظم یونیورسٹی کی ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے ہے ساری کاروائی ٹیچروں سے چھپائی گئی, بائی پاس کا افتتاح کا بھی سٹوڈنٹس اور ٹیچرز کو معلوم نہیں تھا ایسے منصوبوں سے حکومت کی بدنامی ہوگی حکومت کو معلوم تھا یونیورسٹی کے لوگ احتجاج کریں گے
ایسی زمین کے متبادل قریب زمین یے ہی نہیں انتظامیہ کو پوچھنا چاہیے کہ متبادل زمین کہاں دی جائیگی سترہ سو ایکڑ زمین قائداعظم یونیورسٹی کو سنہ 66 میں ملا تھا جس میں سے یونیورسٹی کی چار سو ایکڑ زمین ہر پہلے ہی قبضہ ہے بڑے بڑے محل یونیورسٹی کی زمین پر بنائے گئے, جنھیں کوئی چھو نہیں سکتا اب اگر دوسری زمین مل بھی گئی تو کون خالی کروائے گا, حکومت میں بھی طاقت نہیں وہ قبضہ چھڑوائے حکومت ایسے کام کیوں کررہی ہے جس سے اسکی بدنامی ہورہی ہے ہم سے مشاورت کیے بغیر یونیورسٹی کی زمین مین بلڈوزر چلا دیے گئے قائد اعظم یونیورسٹی زمین زبردستی چھینی گئی ہے
یونیورسٹی کا ہر بندہ اس ہروجیکٹ کے خلاف ہے یونیورسٹی کی زمین بچانے کے لیے بھر احتجاج کریں گے
اس حوالے سے اکیڈمک کونسل ممبران و سٹوڈنٹس میں تشویش پائی جاتی ہے، قائداعظم یونیورسٹی طلباء نے بھی بائی پاس منصوبہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور نعرے بازی کی