پاکستان میں مسلسل بارشوں اور سیلابی صورتحال نے ملک کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا ، لیکن سندھ اور بلوچستان کا حال سب سے برا ہے۔اس ہولناک تباہی سے جہاں انسانی جانوں کا نقصان ہوا، وہیں کھڑی فصلیں، جانور اور کئی عمارتیں بھی پانی کی نذر ہو گئیں۔
سیلاب سے جہاں پورے پورے خاندان متاثر ہوئے ، وہیں حاملہ خواتین اور نومولود بچے اس قدرتی آفت میں زیادہ خطرے کا شکار ہو رہیں ہیں کیونکہ نظام زندگی درہم برہم ہو گئی ہے۔اقوام متحدہ کے بہبود آبادی کے فنڈ (یو این ایف پی اے) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسی ہوئی ہیں، جن میں سے 73 ہزار خواتین کی ڈیلیوری آئندہ ماہ ہو سکتی ہے اور انھیں فوری طبی امداد کی ضرورت پڑے گی۔
الخدمت فائونڈیشن نے اس مصیبت زدہ ما حول میں حاملہ خواتین کی طبی امداد کےلیے کسٹمائز موبائل ہیلتھ یونٹس تیار کروا لیے کیونکہ اس وقت جب لوگوں کے لیے کھانے کو موجود نہیں ، ایسے میں حاملہ خواتین سب سے زیادہ مشکلات سے دوچار ہیں۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں ایک لاکھ 28 ہزار حاملہ خواتین ایسی ہیں جنہیں ایمرجنسی سروسز کی ضرورت ہے، اسی لیے الخدفمت فاونڈیشن نے سیف مدر، سیف فیملی پروجیکٹ شروع کیا ہے۔
الخدمت فائونڈیشن پاکستان کے صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن نے بتایا کہ الخدمت فاونڈیشن سندھ اور بلوچستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں کسٹومائز 12 موبائل ہیلتھ یونٹس تیار کیے جائیں گے۔جوسیلاب متاثرہ علاقوں میں حاملہ خواتین کے طبی معائنے اور زچگی کے دوران معاونت کریں گے۔موبائل یونٹ میں ڈاکٹر کلینک، الٹراسائونڈ، فارمیسی، لیبارٹری اور واش روم کی سہولیات ہونگی، ایک یونٹ کی تیاری پر ڈیڑھ کروڑ روپے کے اخراجات آئیں گے۔
ترجمان کے مطابق 3 موبائل یونٹس جعفرآباد، لوئر اور آپر سندھ بھجوا دیے گئے ہیں جبکہ اب تک 500 کے قریب حاملہ خواتین کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے۔سیف مدر، سیف فیملی پراجیکٹ کے لیے 12 موبائل ہیلتھ یونٹس تیار کروائے جا رہے ہیں، جن کی مالیت 18 کروڑ روپے ہے۔ 20 فٹ کے موبائل یونٹس میں الٹراسائونڈ، ڈاکٹر کلینک، لیبارٹری، فارمیسی اور واش روم کی سہولت ہوگی۔
موبائل ہیلتھ یونٹس سندھ کے 10 اور بلوچستان کے 5 اضلاع میں بھیجیں جائیں گے، جہاں پہلے سے موجود 30 ایمبولینسز ان علاقوں میں حاملہ خواتین کا ڈیٹا اکھٹا کرکے ان کی رجسٹریشن کررہی ہے اوراب تک 500 کے قریب حاملہ خواتین کی رجسٹریشن مکمل ہوچکی ہے۔
ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان تمام موبائل ہیلتھ یونٹس کو سکھر سے کنٹرول کیا جائے گا جس کے لیے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر بنایا گیا ہے، سکھر میں ایک فیلڈ اسپتال بھی قائم ہے اور سیلاب متاثرہ علاقوں میں دوائوں کی فراہمی کے لیے سکھر ہی میں دوائوں کا اسٹور بنایا گیا ہے۔اس وقت 3 موبائل یونٹس تیار کرکے جعفرآباد، اپر اور لوئر سندھ بھیج دیے گئے ہیں اور انہوں نے کام شروع کردیا ہے۔
مزید اس پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان موبائل ہیلتھ یونٹس میں حاملہ خواتین کا میڈیکل ایگزامینیشن کیا جائے گا، انہیں دوائیں، آئرن انجیکشن فراہم کیے جائیں گے، نارمل ڈلیوری کے لیے سیف برتھنگ کٹس، انفینٹ کٹ، ڈگنٹی کٹ، ہائی جین کٹس فراہم کی جائیں گی۔ان علاقوں میں برتھ اٹینڈنٹ اور دائیوں کی بھی رجسٹریشن کی جارہی ہے ، انہیں ٹریننگ دے کر ان علاقوں میں بھیجا جائے گا تاکہ وہ گھروں میں نارمل ڈلیوری کرواسکیں۔
ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں زچگی کے دوران زیادہ خون بہہ جانے سے پوسٹپارٹم ہیمریج کی وجہ سے خواتین انتقال کر جاتی ہیں، اس مقصد کے لیے 25 ہزار انجکشن بیرون ملک سے منگوائے جا رہے ہیں۔یہ انجکشن پوسٹپارٹم ہیمریج کے دوران خواتین کو لگایا جاتا ہے، اس کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو درخواست دی ہے کہ وہ ابتدائی طور پر ان انجکشن کے استعمال این او سی جاری کرے۔
ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن کا کہنا تھا کہ الخدمت فائونڈیشن اس وقت سندھ اور بلوچستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں 9 فیلڈ اسپتال، میڈیکل کیمپس ، ایمرجنسی رسپانس کلینکس اور موبائل کیمپس کام کر رہے ہیں جہاں اب تک 3 لاکھ سے زیادہ مریضوں کو علاج کی سہولیات فراہم کر چکے ہیں۔ دنیا میں زچگی کے دوران خواتین اور نومولود بچوں کی اموات پاکستان میں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، ہماری کوشش ہےکہ زچگی کے دوران ناصرف ماں کو بچایا جائے بلکہ صحت مند بچے کی پیدائش ہو تاکہ دو زندگیوں کو بچایا جا سکے۔