وفاقی دارالحکومت میں سول جج عاصم حفیظ جو کہ جوڈیشل اکیڈمی میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمن ماڈل کورٹس تعینات تھے ان کے گھر میں ان کی اہلیہ صوفیہ کی جانب سے 6 ماہ تک 13 سالہ ملازمہ پر شدید تشدد کیا جاتا رہا
معاملہ میڈیا پر نمایاں کوریج حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تو پولیس کی جانب سے بھی مجبور ہوکر سول جج کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا لیکن اس بار دیر ہوچکی تھی کیونکہ اس دوران سول جج اور ان کی اہلیہ بچوں سمیت اسلام آباد سے فرار ہوچکے تھے، پولیس نے اسلام آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور ان کے آبائی گاؤں میں ان کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے لیکن ہاتھ کچھ نہ آیا
دوسری جانب سرگودھا کے ڈی ایچ کیو میں جب بچی کی حالت نہ سنبھل سکی تو اسے لاہور کے جنرل ہسپتال بھیج دیا گیا جہاں پر بچی آئی سی یو میں تشویش ناک حالت میں ہے
دوسری جانب ملزمہ کی جانب سے بھی گرفتاری کے خوف سے لاہور ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی جو یکم اگست تک برقرار ہے گی
تاہم اس دوران اسلام آباد پولیس کے اے ایس پی سہالہ سعود الرحمن نے ذاتی دلچسپی کے تحت تحقیقات کا دائرہ کار بڑھایا اور وہ بچی کی خیریت دریافت کرنے پولیس ٹیم کے ہمراہ جنرل ہسپتال پہنچے جہاں انہوں نے خیریت دریافت کی اور والدین سمیت بچی کا بھی بیان قلمبند کیا، ان کی جانب سے سرگودھا میں بچی کے گاؤں کا بھی دورہ کیا گیا جہاں انہوں نے بچی کے بہن بھائیوں اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ بھی ملاقات کی
پولیس کی جانب سے لاہور اور سرگودھا میں کی گئی تحقیقات کی روشنی میں ایف آئی آر میں 328 اے کی مزید دفعہ شامل کر دی گئی ہے
پولیس کی جانب سے دعوی کیا گیا ہے کہ سول جج متعلقہ تفتیشی افسران کے ساتھ رابطے میں ہیں اور کل تک ان کی جانب سے شامل تفتیش ہونے کی یقین دہانی بھی کروائی گئی ہے
دوسری جانب ملزمہ کے بیرون ملک فرار ہونے کی خبریں بھی زیر گردش ہیں جس پر اسلام آباد پولیس نے واضع کیا ہے کہ اس حوالے سے متبادل انتظامات مکمل ہیں، ملزمہ کسی صورت قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکیں گی