تحریر: منصور اللہ (ایم ڈی کیٹ سٹوڈنٹ)
ملک بھر سمیت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ایم ڈی کیٹ کے انعقاد میں بظاہر 6 روز باقی ہیں تاہم سوشل میڈیا پر سٹوڈنٹس کی جانب سے مسلسل یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ان کو تیاری کے لیے مزید کم از کم دو ہفتوں کا وقت دیا جائے جس پر پی ایم سی حکام کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی ہے
ہم نے کوشش کی کہ معلوم ہو سکے کہ آخر سٹوڈنٹس کیوں چاہتے ہیں کہ ان کو مزید 2 ہفتوں کا وقت دیا جائے تو ہمیں ایم ڈی کیٹ کے حوالے سے ایک ایکٹو سٹوڈنٹ منصور اللہ کی وال پر ایسی 12 وجوہات ملیں جن میں ان کی جانب سے دعوی کیا گیا تھا کہ ان وجوہات کی بنیاد پر پی ایم سی حکام کو ایم ڈی کیٹ میں مزید تاخیر کرنی چاہئے آخر وہ وجوہات ہیں کیا؟
منصور اللہ نامی سٹوڈنٹ کے مطابق سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ 20 اگست کو وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے پی ایم سی باڈی کو تحلیل کر دیا گیا تھا دوسری وجہ ان کی جانب سے یہ بتائی گئی ہے کہ 7 ستمبر کو نئی کونسل نے چارج لیا اور 8 ستمبر کو ان کی جانب سے ایم ڈی کیٹ کو غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا گیا جبکہ 10 اکتوبر کو صدر پی ایم سی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ 13 نومبر کو ٹیسٹ کا انعقاد کیا جائے گا
منصور اللہ کی جانب سے تیسری وجہ یہ لکھی گئی کہ صدر پی ایم سی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ٹیسٹ کا انعقاد صوبائی خو یونیورسٹیز خود کریں گی اس حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ سلیبس تو پی ایم سی کا ہوگا تاہم سوالنامہ بینک کو صوبائی یونیورسٹیز خود تیار کریں گی
چوتھی وجہ میڈیکل سٹوڈنٹ کی جانب سے یہ بتائی گئی کہ 12 اکتوبر کو 92 نیوز پر دی گئی خبر کے مطابق سندھ پبلک یونیورسٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ ایم سی کیوز کا انتخاب صوبائی ٹیکسٹ بکس سے کیا جائے گا جبکہ اسی روز خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں ایک اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ خیبرپختونخواہ میں ٹیسٹ کی ذمہ داری نجی ٹیسٹنگ ایجنسی ایٹا کو دی جائے گی
پانچویں وجہ میں لکھا گیا کہ 14 اکتوبر کو پی ایم سی کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ سٹوڈنٹس اب سینٹر تبدیل نہیں کر سکیں گے اب یہاں مسئلہ یہ درپیش آیا کہ خیبرپختونخواہ میں رہنے والے جس سٹوڈنٹ نے اسلام آباد کے سینٹر کا انتخاب کیا اس کے لیے اسلام آباد آنا ممکن نہ تھا چھٹی وجہ کے حوالے سے لکھا گیا کہ ایٹا کی جانب سے 14 اکتوبر کو اعلان کیا گیا کہ خیبرپختونخواہ میں ان کی جانب سے ایم ڈی کیٹ کا امتحان منعقد کروایا جائے گا جبکہ 17 اکتوبر کو ان کی جانب سے خیبرپختونخواہ میں مختلف امتحانی سینٹرز کی تفصیلات بھی جاری کر دی گئیں
ساتویں وجہ میں ان کی جانب سے لکھا گیا کہ 21 اکتوبر کو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ ان کی جانب سے ایم ڈی کیٹ امتحان منعقد کروایا جائے گا انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ جب 10 اکتوبر کو پریس کانفرنس میں اعلان ہوچکا تو یونیورسٹی کی جانب سے 11 روز گزرنے کے بعد کیوں تصدیق کی گئی
آٹھویں وجہ میں منصور اللہ نے لکھا کہ 27 اکتوبر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا اجلاس ہوا جس میں سربراہ کمیٹی ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ کی جانب سے پی ایم سی کو تجویز دی کہ وہ ٹیسٹ کو مزید 14 روز کے لیے ملتوی کر دیا جائے اس کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کا دورانیہ ساڑھے تین گھنٹے کیا جائے اور سٹوڈنٹس کو سینٹرز کے انتخاب کے لیے مزید مہلت دی جائے
نویں وجہ میں ان کی جانب سے لکھا گیا کہ 28 اکتوبر کو پی ایم سی نے بذریعہ نوٹیفکیشن یہ اعلان کیا کہ ایم ڈی کیٹ کا دورانیہ ساڑھے تین گھنٹے ہوگا جبکہ سٹوڈنٹس کو سینٹرز کی تبدیلی کے لیے بھی مزید مہلت دے دی گئی، منصور کی جانب سے دعوی کیا گیا کہ پی ایم سی نے یہ اقدامات قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی ہدایات پر عمل درآمد کرتے ہوئے کیے
دسویں وجہ میں انہوں نے ایک بار پھر ایک صحافتی ادارے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ 29 اکتوبر کو ڈان نیوز میں خبر آئی جس کے مطابق نائب صدر پی ایم سی نے کہا کہ ایم سی کیوز کا بینک ہماری طرف سے یونیورسٹیز کو فراہم کیا جائے گا جس سے سٹوڈنٹس میں ایک بار پھر کنفیوژن نے جنم لیا کہ کیا سوالات پی ایم سی خود تیار کرے گا یا یونیورسٹیز کی جانب سے ایسا کیا جائے گا
گیارہویں وجہ میں انہوں نے لکھا کہ 31 اکتوبر کو خیبر میڈیکل یونیورسٹی نے نوٹیفکیشن میں اس بات کی تصدیق کی کہ سوالنامہ بینک ایٹا کا اپنا ہوگا یعنی پی ایم سی کی جانب سے تمام تر انتظامات 31 اکتوبر کو مکمل ہوئے تو کیا 13 روز بعد سٹوڈنٹس سے ایم ڈی کیٹ لیا جانا چاہئے
انہوں نے ایک اور وجہ بتائی کہ 13 نومبر کو ملک بھر میں لاء ایڈمیشن ٹیسٹ بھی ہوگا جس کی وجہ سے سٹوڈنٹس کے لیے دونوں امتحانات میں ایک ساتھ بیٹھنا ناممکن ہے
بارویں وجہ میں انہوں نے کہا کہ چونکہ عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا گیا ہے تو جی ٹی روڑ سے آنے والے سٹوڈنٹس کو سینٹرز تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے انہوں نے mnburdu.com پر صدر پی ایم سی کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر کے مطابق اسلام آباد میں سب ٹھیک ہے تاہم پنجاب میں حالات ٹھیک نہیں ہیں