پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے کونسل اجلاس کے بعد ایم ڈی کیٹ کی ممکنہ تاریخوں میں 13 نومبر اور 20 نومبر کی تاریخ کا اعلان کرنے کے پیچھے وجہ یہ بیان کی گئی تھی کہ چونکہ ٹیسٹ یونیورسٹیز کے زیر اہتمام کیا جائے گا اس لیے ان کی جانب سے بندوبست مکمل ہونے کے بعد ہی حتمی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا
صدر پی ایم سی ڈاکٹر نوشاد شیخ گزشتہ کئی روز سے اجلاس کے فیصلوں کی روشنی میں تمام صوبوں اور وفاقی کی متعین یونیورسٹیز کے سربراہان کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں تاکہ ایم ڈی کیٹ کے حوالے سے حتمی تاریخوں کا اعلان کیا جائے سکے
ڈاکٹر نوشاد اس سے پہلے کے پی، سندھ اور وفاق کی یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کے ساتھ ملاقات کر چکے تھے تاہم گزشتہ روز ان کی جانب سے چیف سیکرٹری بلوچستان اور بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر سے ملاقات میں انتظامات کا جائزہ لیا گیا جبکہ آج ڈاکٹر نوشاد اسی سلسلے میں لاہور میں موجود رہے جہاں ان کی جانب سے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے سربراہ سے انتظامات کے حوالے سے ملاقات کی گئی جس کے پی ایم سی کی جانب سے حتمی تاریخ یعنی 13 نومبر کا اعلان کر دیا گیا

نوٹیفکیشن میں نیا کیا ہے؟؟؟
پاکستان میڈیکل کمیشن کینجانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں بظاہر کچھ نیا نہیں تاہم ایم ڈی کیٹ کی تاریخ کا حتمی اعلان کر دیا گیا جبکہ یہ واضع کر دیا گیا کہ یونیورسٹیز کو یہ اختیار ہوگا کہ چاہے وہ خود امتحان کو منعقد کروائیں یا اس کے لیے کسی بیرونی ٹیسٹنگ ایجنسی (مثلا این ٹی ایس، پی ٹی ایس، یو ٹی ایس) یا دیگر کی خدمات حاصل کر سکتی ہیں تاہم یہ واضع کر دیا گیا کہ یونیورسٹیز کی جانب سے امتحانی آن لائن کی بجائے مینوئیل طریقے سے لیا جائے گا جس کے جوابات کی کاپی اسی روز پی ایم سی کی ویب سائیٹ پر جاری کر دی جائے گی
خبر میں نیا کیا ہے؟؟؟؟
پی ایم سی کی جانب سے نوٹیفکیشن تو جاری کر دیا گیا تاہم اس سے ایم ڈی کیٹ سٹوڈنٹس کے زہنوں میں ڈھیروں سوالات جنم لے گئے کہ کیا یونیورسٹیز کی جانب سے اپنے سلیبس کے تحت پیپر بنایا جائے گا، کیا سوالنامہ بینک یونیورسٹی کا اپنا ہوگا اور کیا ہر یونیورسٹی کا اپنا الگ پیپر ہوگا؟؟؟
ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے پی ایم سی کی گزشتہ پریس ریلیزز اور فیصلوں کی تفصیلات کا جائزہ لیا جائے تو واضع ہوگا کہ پی ایم سی ایکٹ کے تحت یہ ممکن نہیں کہ ہر یونیورسٹی اپنا الگ سے سلیبس بنائے اور اس کے تحت ٹیسٹ لے، اگر ایسا ممکن ہوتا تو شائد پی ایم ڈی سی لانے کے لیے سیاستدانوں کو پارلیمنٹ کے فلور پر روز یوں تماشہ نہ کرنا پڑتا، پی ایم سی ایکٹ میں یہ واضع ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی سلیبس کے تحت امتحان لیا جائے گا تاہم اس کے لیے پی ایم سی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ٹیسٹ خود لینے کی بجائے کسی بیرونی ٹیسٹنگ سروس کی خدمات بھی لے سکتی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ایم سی کی جانب سے گزشتہ سال ایک نجی ٹیسٹنگ کمپنی کی آن لائن ٹیسٹنگ سروسز حاصل کی گئی تھیں اور اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے موجودہ کونسل کیبجانب سے ہر صوبے کی ایک ٹیسٹنگ پبلک سیکٹر یونیورسٹی کو ٹیسٹنگ ایجنسی کا درجہ دیتے ہوئے ٹیسٹ لینے کا اختیار دیا گیا ہے جبکہ یہ بھی واضع کیا گیا کہ وہ خود بھی اس اختیار کا استعمال کرتے ہوئے مزید کسی نجی ٹیسٹنگ کمپنی کی خدمات لے سکتی ہیں تاہم اس ساری صورتحال میں ایک بات جو نوٹ کرنا سب سے اہم ہے کہ گزشتہ سال بھی اس ٹیسٹنگ کمپنی کو سلیبس اور سوالنامہ بینک پی ایم سی ہی کی طرف سے مہیا کیا گیا جبکہ اس سال بھی پورے ملک میں سلیبس کی فراہمی ایک ہی ادارہ یعنی پی ایم سی ہی کرے گا اور وہ پورے ملک میں ایک ہی ہوگا
کیا پورے ملک میں ایک جیسا پیپر آئے گا؟؟؟
اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ عین ممکن ہے کہ ٹیسٹنگ یونیورسٹیز پی ایم سی کے مہیاء کیے گئے سلیبس سے خود کا الگ الگ سوالنامہ ترتیب دیں یا تمام یونیورسٹیز ایک ہی سوالنامے کے تحت امتحان لیں اس حوالے سے ایک سے دو روز میں صدر پی ایم سی تمام یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کے ساتھ ایک آن لائن اجلاس میں اس بات کا حتمی فیصلہ کریں گے