پنجاب میں ڈی پی او لگنے والی بلوچستان کی پہلی خاتون افسر شازیہ سرور کون ہیں؟

دنیا بھر میں جب بھی پاکستان میں رہنے والی خواتین کا ذکر کیا گیا ہمیشہ اسے غیرت کے نام پر قتل، گھریلو ناچاقی، تعلیم اور جاب کی اجازت نہ دینے کے ساتھ جوڑ دیا گیا، حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں حالات شائد بہتر نہ بھی تھے لیکن اب حالات بدل چکے، اب پاکستان کی ہر بیٹی پاکستان کے ہر محکمے کی سربراہی کرنے کا اختیار رکھتی ہے، ڈاکٹرز ہوں، سول سرونٹس ہوں یا افواج پاکستان، اب قوم کی بیٹیوں کی رفتار کو روکنا ناممکن ہے

حال ہی میں پنجاب کے ضلع لیہ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پولیس افسر شازیہ سرور کو بطور ڈی پی او تعینات کیا گیا ہے اور وہ پہلی بلوچستان کی خاتون افسر ہیں جو پنجاب کے کسی ضلع میں پولیس کی قیادت کر رہی ہیں۔ شازیہ بولان سے پہلی خاتون پولیس افسر ہیں، جنھوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی تھی جبکہ اس سے قبل اُن کے والد غلام سرور کسٹم افسر تھے۔

پولیس فورس میں شمولیت سے متعلق ڈی پی او لیہ کہتی ہیں کہ یہ میرے والد کی خواہش تھی کہ میں سی ایس ایس کر کےپولیس فورس جوائن کروں، ان کا تعلق ایک قبائلی خاندان سے ہے مگر وہ اپنے خاندان کی پہلی خاتون ہیں جن کواپنے والد کی مکمل سپورٹ حاصل تھی جس کی وجہ سے کو ایجوکیشن میں تعلیم حاصل کی اور پھر ملازمت بھی کی۔ ان کے والد نے ملازمت کے شروع کے دنوں میں رات کوشازیہ کے ساتھ گشت پر بھی جایا کرتے تھے۔

قبائلی علاقوں میں کم علمی کی وجہ سے بہت سے دقیانوسی تصورات پائے جاتے ہیں جیسا کہ بیٹیوں کو وہ مقام نہیں دیا جاتا ہے جو بیٹے کو حاصل ہوتا ہے لیکن شازیہ سرورجنہیں والد کے سپورٹ اور رہنمائی حاصل تھی ان کی دیکھا دیکھی دقیانوسی تصور ٹوٹےاور ان کے خاندان میں موجود کزنز نے بھی تعلیم حاصل کی اور اب کئی خواتین مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔

شازیہ سرور کا بھی ماننا ہے کہ دوران سروس مشکلات تو ہوتی ہیں لیکن ان مشکلات پر قابو پانا ہی ہمت کی نشانی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کی پہلی تعیناتی ساہیوال میں ہوئی تھی۔ وہاں پر ایس ایچ او صاحبان کا خیال تھا کہ وہ رات کو گشت نہیں کرپائیں گی ،لیکن ان خیالات اور سوچ کے برعکس وہ رات کو خود گشت کرتی ،چھاپے بھی مارتی اور تفتیش بھی کرتی تھیں۔ کئی مرتبہ کچھ بااثر لوگوں نے تیز بننے کی کوشش کی مگران کا رویہ دیکھ کر جلد ہی اپنی جگہ پر آ جاتے تھے۔


شازیہ سرور نے بتایا کہ انھوں نے لاہور کے شعبہ تفتیش میں کئی سال فرائض انجام دیے۔ان کا کہنا ہے کہ میرے لیے ہر کیس ہی اہم ہوتا ہے۔ ہر کیس کو میرٹ پر حل کرنے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔اور بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ ہر کرائم سین کا خود دورہ کروں اور وہاں سے تفتیش کا آغاز کروں۔ کرائم سین کا خود معائنہ کرنے کی بدولت مجھے کئی پیچیدہ کیسز کو حل کرنے میں مدد ملی تھی۔
شازیہ سرور کہتی ہیں کہ ایک مشہور زمانہ کیس میں ایک کم عمر گھریلو ملازمہ کو تشدد کر کے پھینک دیا گیا تھا۔یہ بڑا عجیب وغریب اور سفاکانہ کیس تھا۔ اس کیس میں مقتولہ کے والد کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بنیادی معلومات حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا تھا لیکن کیس کی تفتیش کا آغاز انہوں نے خود کیا۔

اس کیس کی ابتدائی تفتیش کے متعلق ان کا کہنا تھا شروع میں ہی وہ اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی کہ یہ قتل اس گھر کے مالکان نے کیا ہے مگر مسئلہ یہ تھا کہ ثبوت کہاں سے تلاش کیے جائیں۔ ثبوت کی تلاش کے لیے انہوں نے منصوبہ بندی کی اور ملزماں کے گرد پورا جال بچھایا اور ان کو تھوڑے عرصے بعد بمعہ ثبوت گرفتار کر لیا۔

شازیہ سرور کہتی ہیں کہ ایک اور قتل کے کیس میں ایک نوجوان کی لاش ملی تھی۔اس کیس کا کوئی سرا نہیں مل رہا تھا۔ واقعہ اتنا ہولناک تھا کہ میں نے خود اس کی تفتیش کا فیصلہ کیا اور کرائم سین سے ملزماں کی تلاش شروع کی اور پھر کچھ ہی دنوں میں کیس حل کر لیا تھا۔ مقتول کو اس کے دوستوں نے پیسوں کی خاطر قتل کیا تھا۔
بہت سے پیچیدہ کیسز کو حل کرنے پر شازیہ سرور کو کئی سرٹیفکیٹ اور ایوارڈز کے علاوہ افسران کی جانب سے حوصلہ افزائی کے خطوط بھی ملے ہیں۔ پنجاب پولیس کے ترجمان وقاص نذیر کا کہنا تھا کہ شازیہ سرور پنجاب میں تعینات ہونے والی چوتھی خاتون ڈی پی او ہیں۔ انھوں نے چارج بھی لیہ کی ایک خاتون پولیس افسر ڈاکٹر ندا عمر چٹھہ سے لیا۔ ان سے پہلے مختلف اضلاع میں ماریہ محمود، شائستہ ندیم، عمارہ اطہر کے علاوہ ڈاکٹر انوشہ لاہور میں ایس ایس پی آپریشنل کی خدمات انجام دے چکی ہیں۔

شازیہ سرور کہتی ہیں کہ وہ پنجاب میں جینڈر کرائم شعبہ کی پہلی افسر تھیں۔اس دوران اور اب بھی خواتین کے گھریلو مار پیٹ، تشدد، زیادتی کے کیس سامنے آتے ہیں۔ ایسے کیسز کی تفتیش کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ عموماً ایسے واقعات کی وجہ خواتین کا معاشی طور پر خود کفیل نہ ہونا ہوتا ہے۔

کئی شادی شدہ خواتین کے والدین اپنی بیٹیوں پر ظلم کی وجہ سے ہمارے پاس روتے ہوئے آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس موقع پر ان کو اپنی مثال دیتی ہیں کہ میرا تعلق ایک قبائلی خاندان سے ہے مگر مجھے میرے والدین نے پڑھا لکھا کر دوسروں کی مدد کے قابل کیا۔ اگر بیٹوں کو اعتماد دیں گے تو ان کی مستقبل کی زندگی محفوظ رہے گی۔ جہیز کی جگہ اگر عتلیم کے زیور سے بیٹیوں کو آراستہ کیا جائے تو کسی کی زندگی میں کوئی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے اور خوشحال زندگی ان کی ضامن ہو۔

پنجاب پولیس کے ترجمان وقاص نذیر کہتے ہیں کہ خواتین افسران کی اہم عہدوں پر تعیناتیاں پنجاب حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے۔پنجاب پولیس میں خواتین افسران کی کارگردگی کو صنف کی بنیاد پر نہیں بلکہ فورس کے ایک افسر کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں