صدر پی ایم سی ڈاکٹر نوشاد کا کہنا ہے کہ فی الحال سٹوڈنٹس کے ٹیسٹ کا انعقاد کروانے کا اختیار پی ایم سی کے پاس ہی ہے پی ایم ڈی سی ترمیمی بل سینیٹ سٹوڈنٹس منظور ہونے کے بعد ہی عملی صورت اختیار کر سکے گا تاہم اس حوالے سے ایک یا دو ماہ میں صورتحال واضع ہوسکے گی
ایم ڈی کیٹ ملتوی کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پروفیسر نوشاد کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک میں سیلابی صورتحال ہے جس کی وجہ سے سندھ، بلوچستان اور وفاقی حکومت کی خواہش پر تاکہ کوئی بچہ اس سال میڈیکل کالج میں داخلے سے رہ نہ جائے، انہوں نے واضع کیا کہ ابھی تک ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کے حوالے سے کسی حتمی تاریخ کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے وزیر صحت نے دورہ پی ایم سی کے دوران یہ کہا تھا کہ معاملے کا حل نکالا جائے جس سے بظاہر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نومبر کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں ہم ایم ڈی کیٹ کا انعقاد کروا سکیں گے
انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومت کی جانب سے واضع ہدایات ہیں کہ جو بھی ایم ڈی کیٹ کروایا جائے وہ صوبوں میں موجود پبلک سیکٹرز یونیورسٹیز کی مدد سے ہی کروایا جائے گا اس حوالے سے جلد ہی مختلف صوبوں کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے ساتھ میٹنگ کی جائے گی جس کے بعد ملک بھر میں 5 مختلف مقامات ہر امتحانی سینٹرز بنائے جائیں گے جبکہ نتائج کے حوالے سے بھی وہی یونیورسٹیز پی ایم سی کے لیے معاون ہونگی تاہم حتمی فہرست طے شدہ میرٹ لسٹ کے مطابق ہی کی جائے گی
اس حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے صدر پی ایم سی نے کہ کہ ہمارے پاس سندھ اور بلوچستان میں سیلابی صورتحال ہونے کی وجہ سے ممکن ہے کہ پنجاب، کے پی اور اسلام آباد میں ٹیسٹ کا انعقاد پہلا کر لیا جائے تاہم کوشش ہوگی کہ ملک بھر میں ایک ہی دن ایم ڈی کیٹ کا انعقاد کیا جائے تاکہ کسی بھی سٹوڈنٹ کے اعتراضات سامنے نہ آئیں اور میرٹ میں بھی کوئی فرق نہ پڑے
آن لائن ٹیسٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آن لائن ٹیسٹ جو لیا گیا وہ بنیادی طور پر ایک نہ ممکن بات تھی، آن لائن ٹیسٹ 30 سے 35 دنوں میں مکمل ہو رہا تھا تاہم ہم پہلے والے روایتی نظام کے تحت ہی ٹیسٹ لیں گے اس کے لیے مختلف یونیورسٹیز کو کہا جائے گا کہ وہ ٹیسٹ کا انعقاد کریں یا ہم خود بھی ٹیسٹ لے سکتے ہیں
انہوں نے واضع کیا کہ پاکستان میں مجموعی طور پر 2 لاکھ دس ہزار سٹوڈنٹس ایم ڈی کیٹ کے لیے رجسٹر ہوچکے ہیں ان کا آن لائن ٹیسٹ لینا ڈیڑھ ماہ کا عمل ہوگا یہ ممکن نہیں ہوگا کیونکہ کئی علاقوں میں انٹرنیٹ موجود نہیں کہیں پر وائی فائی کا تو کہیں سرور کا مسئلہ ہوگا
انہوں نے کہا کہ ہم نے 15 دن کے لیے اپنا پورٹل ان سٹوڈنٹس کے لیے کھولا تاکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے سٹوڈنٹس کو دوبارہ بھی اپلائی کرنے کا موقع مل سکے جس سے ہمارے پاس مزید 4 ہزار نئے سٹوڈنٹس رجسٹرڈ ہوچکے ہیں جبکہ پاسنگ پرسینٹیج میں بھی کمی کر دی گئی ہے گزشتہ سال ایم ڈی کیٹ میں بڑی تعداد میں بچوں کے فیل ہونے کی وجہ سے ہماری متعدد سیٹیں خالی رہیں اور 16 ہزار سے زائد بچے پڑھائی کے لیے بیرون ملک چلے گئے جو کہ ان کے خاندانوں کے لیے پریشانی کا باعث بنا اور پاکستان کو تقریبا 15 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تاہم ہم نے سٹوڈنٹس دوست پالیسی بنائی ہے جو ان کے مستقبل کے لیے بھی اچھی ہو
انہوں نے ناقدین کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ معیار کم کرنے کے حوالے سے مختلف باتیں کی جا رہی ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ کیا جو سٹوڈنٹ چین اور روس سے پڑھ کر آتا ہے وہ اچھا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ وہ بچہ ہمارے برے معیار سے بھی کم تر ہوتا ہے لیکن ہم پھر بھی ان کو قبول کرتے ہیں اگر وہ این ایل ای پاس کر لے، اس لیے ہم اپنے سٹوڈنٹس کو موقع دیں گے کہ وہ یہاں ہی پڑھیں
ایم ڈی کیٹ کے حوالے سے انہوں نے پھر کہا کہ سیکرٹری صحت اور دیگر ذمہ داران کے ساتھ مشاورت جاری ہے اور جلد ہی ٹیسٹ کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا تاہم بچوں کے لیے ابھی بھی پورٹل کھلا ہے وہ اپلائی کر سکتے ہیں تاہم ہماری کوشش ہوگی کہ کے پی، پنجاب اور اسلام آباد کا ایک روز جبکہ سندھ اور بلوچستان کا ایک دن ٹیسٹ ہو
ٹیسٹ کے پیٹرن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صدر پی ایم سی نے کہا کہ اس بار پیٹرن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، سلیبس وہی ہوگا تاکہ جن بچوں نے تیاری مکمل کر لی ہے ان کو کسی بھی قسم کی پریشانی نہ ہو جو سلیبس ان کے پاس پہلے سے ہی موجود ہے وہ اس کے مطابق ہی تیاری کریں
ٹیسٹ کی ویٹج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ پاس کرنے والے سٹوڈنٹس کی %50 ویٹج لی جائے گی جبکہ انٹر مارکس کی %40 اور %10 ویٹج کا تعلق میٹرک مارکس کے ساتھ ہوگا تاکہ میٹرک انٹر میں اچھے مارکس لینے والے سٹوڈنٹس کو بھی فائدہ دیا جا سکے، اس کے ساتھ ساتھ %10 مارکس ہمارے حفاظ اور معذور بچوں کے لیے بھی رکھے گئے ہیں تاہم کونسل کی جانب سے اس تجویز کی حتمی منظوری دی جائے گی
کاربن کاپی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوشش ہوگی کہ پہلی کی طرح کاربن کاپی مہیا کی جائے تاہم انہوں نے کہا کہ حالات کے مطابق فیصلہ بدل سکتا ہے لیکن امکان یہ ہی ہے
فیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سٹوڈنٹس کو اب مزید فیس دینے کی ضرورت نہیں ہوگی