وفاقی حکومت کے پاس صوبائی یونیورسٹیز کے لیے فنڈز ختم

چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کو بتایا ہے کہ صوبوں میں بغیر منصوبہ بندی کے پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز کے قیام سے کوالٹی ایجوکیشن پر کمپرومائز ہو رہا ہے۔ گزشتہ قلیل دورانیہ میں مختلف صوبائی اسمبلیوں نے 15 سے زائد نئی پرائیویٹ سیکٹر جامعات کے چارٹر منظور کئے گئے ہیں

صوبوں نے ان نئے اداروں کے قیام سے نہ صرف کونسل فارملٹیز پوری نہیں کیں بلکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے نئی جامعات کے قیام کے لئے طے کردہ ضوابط پر بھی کمپرومائز کیا۔ آج شعبہ اعلی تعلیم 2017-18 سے بھی کم بجٹ میں گزارہ کر رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بڑی پبلک سیکٹر جامعات کو تنخواہوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں صوبائی حکومتیں اپنے منظور کردہ انہیں اداروں کو مالی گرانٹ کی فراہمی میں بھی ناکام ہیں۔ وفاقی وزیر تعلیم نے بتایا کہ اس وقت کل جی ڈی پی کا فقط ایک فیصد شعبہ تعلیم کے لئے مختص ہے۔ ایسے میں وفاقی حکومت صوبائی چارٹر کی حامل جامعات کو کہاں سے فنڈز کی فراہمی یقینی بنائے۔ صوبوں میں بعض جامعات ایسی ہیں جن کا ریکارڈ ایچ ای سی کے پاس بھی موجود نہیں، بابا گرنانک یونیورسٹی انہیں میں سے ایک ہے

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر عرفان صدیقی کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔ چترال یونیورسٹی کو درپیش مالی مسائل، این بی ایف کے کارکردگی سمیت دیگر ایجنڈا آئٹمز پر بریفنگز دی گئیں۔ دوران اجلاس وفاقی وزیر تعلیم نے کمیٹی شرکاء کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے بچوں کے لئے دو سمسٹرز کی فیس معاف کرنے سمیت ان کی سکالر شپ میں اضافہ کیا ہے

چترال یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کمیٹی کو بتایا کہ موجودہ مالی سال میں صوبائی حکومت کی طرف سے ایک پائی بھی نہیں دی گئی۔کمیٹی اجلاس میں اراکین کمیٹی کے علاؤہ وفاقی وزیر تعلیم، چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن، سیکرٹری ایجوکیشن، ایڈیشنل سیکرٹری ایجوکیشن کے علاوہ متعلقہ محکموں کے حکام نے شرکت کی

اپنا تبصرہ بھیجیں