قائد اعظم پولیس میڈل لینے والے کم عمر ترین پولیس افسر ایس پی کیپیٹن (ر) حمزہ ہمایوں کون ہیں؟

حکومت پاکستان کی جانب سے مختلف سیکٹرز میں بہترین خدمات کے اعتراف میں یوم آزادی پر مختلف شخصیات کے حوالے سے اعلی ترین قومی اعزازات کا اعلان کیا گیا، محکمہ پولیس کا اعلی ترین ایوارڈ یعنی قائد اعظم پولیس میڈل جیتنے والے افسران کا نام بھی فہرست میں شامل تھا

فہرست کی خوبصورت بات یہ رہی کہ اس میں کئی شہدا کی قربانیوں کو بھی یاد رکھتے ہوئے ان کو ناموں میں جگہ دی گئی جبکہ کئی جونیئر رینک کے اہلکاروں کی خدمات کو بھی سراہا گیا، اسلام آباد پولیس کے کئی اعلی افسر بھی اس فہرست میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے، قائد اعظم پولیس میڈل حاصل کرنے والے ہر افسر کی قومی خدمات کی ایک الگ ہی داستان ہوتی ہے

ہم نے کوشش کی ان ستاروں میں سے ایک ستارے ایس پی کیپیٹن ریٹائر حمزہ ہمایوں سے بات کریں تاکہ ان کی کہانی اپنے نوجوانوں تک پہنچائی جا سکے

بچن کی یادیں اور تعلیمی سفر کیسا رہا؟

سب سے بنیادی سوال ہی یہ تھا کہ کیسے بچپن میں سوچا کہ بطور فوج اور بعد ازاں پولیس کو بطور کرئیر منتخب کریں گے جس پر انہوں نے بتایا کہ وہ نوشہرہ میں ایک نارمل سی مڈل کلاس آرمی فیملی میں پیدا ہوئے چونکہ ان کے والدین کا تعلق آرمی سے تھا تو فیملی کے ماحول میں آرمی کا رنگ نمایاں تھا

اپنی تعلیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم کونوینٹ سکول بہاولپور جبکہ سیکنڈری کی تعلیم صادق پبلک سکول بہاولپور سے حاصل کی

اپنی سکول کی زندگی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے حمزہ ہمایوں کہنے لگے کہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہماری میوزک کلاسز میں غیر ملکی ٹیچرز کی جانب سے ہمیں یہ سکھایا جاتا تھا کہ کوئی بھی کام حقیر نہیں ہوتا انہوں نے مزید کہا کہ انسان سکول لیول پر پراعتماد ہونے فن سیکھتا ہے

سیکنڈری ایجوکیشن کے حوالے سے یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بڑے بڑے وڈیروں کے بچے بڑی بڑی گاڑیوں میں آتے تھے لیکن اسی دوران میری والدہ مجھے چھوٹی سی سوزوکی ایف ایکس میں سکول چھوڑنے آیا کرتی تھی، حمزہ ہمایوں کے مطابق اکثر ایسا ہونا کہ ان کی جانب سے اپنی والدہ سے اصرار کیا جانا کہ وہ ان کو ذرا پیچھے ہی اتار دیں تاکہ وہ پیدل ہی سکول کے گیٹ تک جا سکیں تاہم بعد میں زندگی میں تبدیلی آئی اور آرمی کالج جانے کا موقع ملا تاہم گورنمنٹ کالج لاہور میں ابھی بی ایس آنرز کا آغاز کیا ہی تھا کہ دل میں فلم ڈاریکشن میں جانے کا خیال آیا جس کو سوچتے ہوئے والد کو نیشنل کالج آف آرٹس میں داخلے کے لیے درخواست کی تاہم والد کو اس بات کا خدشہ پیدا ہوا کہ اس سے قبل میں خراب ہو جاؤں مجھے آرمی میں بھیج دینا چاہیے

افواج پاکستان میں کیسے آئے؟

افواج پاکستان میں بھرتی ہونے کے سوال پر حمزہ ہمایوں نے بتایا کہ این سی اے کا خیال جوں ہی والد کے سامنے زبان پر لایا تو ان کی جانب سے یہ شرط عائد کر دی گئی کہ ایک بار فوج میں بھرتی کے لیے کوشش کرو اگر نہ منتخب ہو سکے تو تمہیں تمہاری مرضی کی اجازت ہوگی تاہم والدہ کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں لیکن وہ میرے لیے ناممکن تھا کیونکہ میں اتنی کتابیں نہیں پڑھ سکتا تھا

ان کی جانب سے مزید بات کرتے ہوئے بتایا گیا کہ میں نے فیل ہونے کی غرض سے آرمی میں جانے کی ایک نام نہاد کوشش کی اور جان بوجھ کر ایسی حرکات کیں کہ مجھے فیل کر دیا جائے لیکن مجھے آئی ایس ایس بی کی جانب سے Highly Recommended کا لیٹر تھما دیا گیا کیونکہ شائد آرمی کی جانب سے ایک امیدوار میں مورل ویلیوز کو دیکھا جاتا تھا بہرحال میں اس میں بہت واضع تھا جس کی وجہ سے میرے بھاگنے کے خدشے کے پیش نظر شائد مجھے فوری ہی کال لیٹر دے دیا گیا جس سے مجھے ایک دلی خوشی محسوس ہوئی

بطور کیپیٹن پاکستان آرمی کیسا تجربہ رہا؟

آرمی کے تجربے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے حمزہ ہمایوں نے بتایا کہ اس طرح میری فوج کی زندگی کا آغاز ایک بہترین ادارے پاکستان ملٹری اکیڈمی سے ہوا جہاں آغاز میں گھر سے نکلا ہوا ایک بچہ پہنچا تھا جس کو گھر سے فون آتے تھے لیکن آرمی نے اس بچے کو مکمل طور پر بدل ڈالا اور اس میں Self Respect جیسی پرنسپل ویلیوز ڈالیں

انہوں نے تجویز کیا کہ پاکستان کے ہر شہری کو دو سال کے لیے پاکستان ملٹری اکیڈمی ٹریننگ کے لیے لازمی بھیجنا چاہیے انہوں نے کہا کہ اس طرح ان کا فوج میں آغاز ہوا اور انہوں نے اس عظیم ادارے کو 10 سال دئیے

آرمی میں کیا قربانیاں دیکھیں کونسے آپریشنز میں حصہ لیا اور کیا کمالات کیے؟

کیپیٹن حمزہ نے کہا کہ i passed out form PMA as a belt، اکیڈمی میں صرف اپکا صرف 600 سو کا کورس ہوتا ہے اپکی 40 بیلٹ ہوتی ہیں اور الحمداللہ میں ان میں سے ایک تھا اور مجھے اہنی مرضی کا یونٹ آرمڈ کور ملا یہ میرے والد کا بھی یہ ہی یونٹ تھا تو مجھے اس میں رہ کر خدمت کا موقع ملا

آپریشن ایریاز کا تجربہ

ایس پی حمزہ کہتے ہیں کہ فوج میں دس سالہ سروس میں میرے 5 سال آپریشن ایریاز میں گزرے پہلے دو سال میران شاہ میں جاری آپریشن المیزان میں گزرے کہتے ہیں کہ یہ 2010-11 کی بات ہے جبکہ میران شاہ اور وزیرستان میں دہشتگردی اپنے عروج پر تھی تاہم اگلے تین سال میں نے بنوں میں گزارے جو آپریشن ضرب عضب کے بعد کا وقت تھا

سابق فوجی افسر نے بتایا کہ ان کو آرمی نے ہر روز کسی نہ کسی طرح کچھ نہ کچھ لازمی سکھایا تاہم ان 5 سال کا تجربہ سب سے مختلف رہا یہ بلا شبہ میری زندگی کا سب سے مشکل وقت بھی تھا تاہم وہ ایک یادگار وقت بھی تھا کیونکہ اس وقت نے مجھ میں بہت سے ویلوز کو ایڈ کیا اور بہت کچھ سکھایا

پہلے دو سال میران شاہ میں مختلف مقامات پر ڈیوٹیز لگتی رہیں کیپٹن حمزہ نے آپریشن ایریا کے ایک واقعے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ روڑ اوپنگ ڈے جو دو دن جبکہ پانچ دن کرفیو لگا رہتا تھا اور دوران کرفیو موومنٹ کے لیے ایک خطرہ منڈلاتا رہتا تھا ان کو متعدد بار کراس فائر میں مشکل ترین حالات کا بھی سامنا رہا اور ان کو دل کے قریب گولی لگنے کا بھی سامنا ہوا تاہم بلٹ پروف جیکٹ کی وجہ سے وہ محفوظ رہے اسی طرح بنوں اور میران شاہ میں دوران دو الگ آئی ڈی دھماکوں میں وہ محفوظ رہے

اپنے فوجی جوانوں کا ذکر کرتے ہوئے کیپٹن حمزہ جذباتی دکھائی دئیے کہا کہ بہت سے دوستوں کو اپنی آنکھوں سے جاتے ہوئے دیکھا کچھ غازی تو کچھ شہید بن کر ہم سے دور ہوتے گئے

وہ لمحہ جب آپ کا سولجر آپ کے ہاتھوں میں دم توڑ دے؟

کیپیٹن حمزہ سے یہ سوال مشکل تھا کیونکہ وہ جذبات میں بہتے ہوئے ماضی کی یادوں میں کھو چکے تھے تاہم انہوں نے جواب دیا، واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ یہ میری زندگی کے سب سے جذباتی ایام تھے جنہوں نے مجھے مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا میں نے اپنے رشتہ داروں کے جنازوں پر شائد اتنے آنسو نہ بہائے ہوں جتنے میں نے اپنے بھائیوں اپنے جوانوں کے جنازوں پر بہائے

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے سولجرز کو درد میں دیکھا ہے جب وہ جا رہے تھے ان کی آخری سانسیں ان کے جذبات دیکھے ہیں میں نے ان کو اپنی زندگی کو جاتے ہوئے دیکھتے بھی دیکھا ہے “ایک سولجر جس کی میں بات کبھی نہیں بھول سکتا یہ واقعہ ہے روڑ اوپنگ ڈے کا جب صبح کے وقت ڈیوٹی کا ٹائم تھا تو وہ میرے قریب ڈیوٹی لگوانا چاہتا تھا تاکہ دوپہر کے کھانے پر مجھے جوائن کر سکے بدقسمتی سے اس پیٹرول پمپ پر آئی ڈی بلاسٹ ہوا اور وہ سولجر نہیں رہا اس کی شہادت ہوگئی، جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس کا ایک بازو اتر چکا تھا اور اس میں سے ایک ٹیوب ویل کی مانند خون بہہ رہا تھا اور میں نے اس پر ہاتھ رکھ لیا، اس لمحے اس سولجر کی سانسیں آہستہ آہستہ نکل رہی تھیں، اس نے جاتے ہوئے بس اتنا کہا کہ حمزہ صاحب بس کھانا ہی تو کھانا تھا آپ کے ساتھ” اس کے ساتھ ہی اس کی سانسیں ختم ہوگئیں اور وہاں سے آنے کے بعد میں اب شائد مرغا بھی ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکتا

دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس قومی سطح پر اس جنگ کا آغاز دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے کیا گیا لیکن یہ ایک ذاتی جنگ میں بدل گئی جس کی بڑی وجہ ایسے واقعات ہیں جب چھوٹے چھوٹے پیمپرڈ بچوں نے ہارڈ کور ملٹنٹس کا مقابلہ کیا اور بہادری سے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا یقین مانیں ایسی عظیم فوج آپ کو کہیں نہیں مل سکتی انہوں نے سیلوٹ کیا فوج اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جن کی جانب سے اس ملک کے لیے بے پناہ قربانیاں دی گئیں

سی ایس ایس میں باقی آپشنز ہونے کے باوجود کیپٹن (ر) حمزہ ہمایوں پولیس افسر کیوں بنے؟

سول سروسز جوان کرنے کے سوال پر انہوں نے بتایا کیونکہ میں اکلوتا بیٹا تھا تو میرا ہمیشہ سے یہاں آنے کا شوق تھا اور مقصد لوگوں کی گراس روٹ لیول تک خدمت کرنا تھا میرا سول سروس میں آنے کا خواب ضرور تھا تاہم زندگی میں اس کے لیے کبھی سفارش نہیں کروائی، فوج میں میجر پروموٹ ہونے ہی والا تھا اور رات کو خود سے باتیں کرتے ہوئے سویا کہ شاید اب قسمت میں سول سروس میں جانا نہیں کیونکہ میں کیپیٹن ٹو میجر کا امتحان بھی پاس کر چکا تھا، لیکن اس کے ایک ہفتے بعد ہی ایم ایس برانچ سے لسٹ نکلی اور اس میں میرا نام آگیا یہ عمل سکروٹنی میں 3180 کیپٹینز سے شروع ہوکر 7 لوگوں تک پہنچا جن میں میرا نام بھی شامل تھا معاملہ آگے بڑھا ایف پی ایس سی میں انٹرویو ہوا مجھ سے میری چوائس پوچھی گئی تو میں نے پی ایس پی یعنی پولیس سروس بتائی کیونکہ مجھے یونیفارم سے بہت محبت تھی میں اس سے دور نہیں رہ سکتا تھا

انہوں نے کہا کہ پولیس میں آپ کو موقع ملتا ہے کہ آپ لوگوں کی خدمت کرکے ان کے ہیرو بن سکتے ہیں

پولیس میں اب تک کرئیر کیسا رہا؟؟؟

انہوں نے کہا کہ میری پہلی تعیناتی گلگت بلتستان میں ہوئی اس کے بعد دوسری تعیناتی اسلام آباد میں ہوئی جہاں میں بطور ایس پی ٹریفک، ایس پی صدر اور اب چیف سیکورٹی آفیسر ٹو انٹیرئیر منسٹر فرائض کی ادائیگی کر رہا ہوں

ایس پی حمزہ پاکستان کی عوام کی نظر میں ہیرو کب بنے؟؟؟

انہوں نے شکوہ کیا کہ روز پولیس میں ہمیں ہیرو دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ہم ان کو نوٹس نہیں کرتے پولیس میں اچھے برے دونوں قسم کے لوگ ہیں لیکن اچھے لوگ بہت زیادہ ہیں ہم انہیں روز لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن ان کو پذیرائی نہیں ملتی

اپنے واقعہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے اپنے بارہ کہو ریسکیو آپریشن کے بارے میں بتایا جس میں انہوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہوئے ایک معصوم مغوی بچی کو اغواکاروں کے چنگل سے آزاد کروایا یہ ہی وہ آپریشن تھا جس کی وجہ سے میرا نام پاکستان کے سب سے کم عمر آفیسر کے قائد اعظم پولیس میڈل کے لیے بھیجا گیا جو پولیس سروس کا سب سے اعلی ایوارڈ سمجھا جاتا ہے

https://twitter.com/HamzahHumayun/status/1376284221233315842?t=6-eNtMhkXFrnSPCzfkJjgw&s=19

کیپیٹن ریٹائرڈ حمزہ ہمایوں نے یوتھ کے لیے میسج دیتے ہوئے کہا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شائد دو تین ہی راستے ہیں آرمی، ڈاکٹر اور پولیس افسر بننے کے اس کے علاوہ اگر ہم کہیں اور گئے تو شائد کچھ بن نہ سکیں، آپ اللہ تعالی کو ایک بار چانس دیں اپنی زندگی کو بدلنے کا، اپنے آپ پر بھروسہ رکھیں، آپ کی قابلیت سے زیادہ آپ کہ محنت اور آپ کی قسمت آپ کو زندگی میں کسی مقام تک پہنچا سکے گی، انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو کسی کو گرا کر خود چلنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں رہ پاتے، اپنے اصولوں پر کسی صورت سمجھوتہ نہ کریں اور سروسز میں اس لیے نہ آئیں کہ بڑی گاڑی بڑا گھر بڑا عہدہ ہوگا، یہاں آنا ہے تو فخر کے لیے آئیں اور عوام کی روزانہ کی بنیاد پر خدمت کرنے کے لیے آئیں

اپنا تبصرہ بھیجیں