پشاور یونیورسٹی گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے بند ہونے کی وجہ سے سٹوڈنٹس کی تشویش میں اضافہ ہوگیا، ٹیچرز کی جانب سے ہڑتال ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی کے تعلیمی معاملات ٹھپ ہوکر رہ گئے، اس حوالے سے یونیورسٹی کی ایک طالبہ کی جانب سے لکھی گئی تحریر نے ساری صورتحال کا پول کھول دیا
پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ادریس اور اسکی طرفدار ایک مذہبی تنظیم جو ہمیشہ عوامی حقوق کے مقابل استبدادی قوتوں کی ہمکاررہی ہے نے پروپیگنڈے سے اس تاثر کو پھیلایا ہے کہ اساتذہ کچھ معلوم یا نا معلوم مفادات کیلئے یونیورسٹی کو بند رکھ رہے ہیں اور اسطرح طلبا اور انکے والدین کےوقت اور پیسے کا ضیاع کرہے ہیں حالانکہ یہ صرف اساتذہ کا معاملہ نہیں اور یونیورسٹی کے سب ملازمین بلا لحاظ عہدہ اور پیشہ ورانہ درجہ بندی جاری احتجاج میں شرکت کرہے ہیں اور اساتذہ نے تو یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ وہ ہر حال میں اضافی کلاسیں لیکر ضائع شدہ وقت کی ازالہ کریں گے
اس قسم کے پروپیگنڈے کا مقصد یہ ہے اساتذہ کو اخلاقی قانونی اور عوامی دباؤ سے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور ایک دفعہ جب اساتذہ کی مزاحمت جاتی رہے تو باقی ملازمین کی resolution بھی کمزور ہو جائے گی۔
طلبا اور انکے والدین کو اساتذہ کے کہنے پر بھروسہ کرنا چاہیے انکو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ساری دنیا میں حقوق کیلئے احتجاج اور کام سے بائیکاٹ ایک مستعمل طریقہ ہے اور اگر طاقت کے نشے میں بدمست سربراہان کوشش کرتے ہیں کہ اختیارات کے زور پر ماتحتوں کو زیر کیا جائے انکے حق انصاف کو چھینا جائے انکے عزت نفس کو مسل دیا جائے اور انکو محض مشینوں میں تبدیل کیا جائے تو ماتحتوں کے پاس بھی عدم تعاون واحد راستہ ہوتا ہے جس سے وہ انکو اس بات سے روک سکتے ہیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہئے کہ پچھلے دو سالوں میں پشاور یونیورسٹی میں کیوں اتنی کثرت سے اور اتنے شدید او بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے ہیں؟ ماضی کے مقابلے میں کیا تبدیل ہوگیا ہے جوان احتجاجات کا باعث بنا ہے اورپشاور یونیورسٹی میں ساتھ والی یونیورسٹیوں سے کیا مختلف ہے جب وہاں پر احتجاج نہیں ہوتے اور یہاں پر ہوتے ہیں؟ کیا یونیورسٹی کے دو ہزار ملازمین ہی غلط ہیں اور ایک فرد واحد صحیح ہے؟ کیا اس بات پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ وایس چانسلر ماضی کے نامور وایس چانسلروں پروفیسر متین، پروفیسر قاسم جان، پروفیسر ذوالفقار گیلانی، پروفیسر قبلہ ایاز، ڈاکٹر رسول جان وغیرہ سے یونیورسٹی کازیادہ خیر خواہ زیادہ بصیرت والا زیادہ انسان شناس اور زیادہ علمی اور انتظامی قابلیت رکھنے والا ہے کہ انکے خلاف احتجاج اسلئے ہوتے ہیں کہ یہ یونیورسٹی کو صحیح کرنا چاہتا ہے اور انکے خلاف احتجاج اسلئے نہیں ہوتے تھے کہ وہ چشم پوشی کرتے تھے اور یونیورسٹی کی بھلائی نہیں چاہتے تھے؟ تو براہ کرم اگر مسلے کا مستقل اور دیرپا حل میں غرض ہے تو مسائل کی جڑ root cause پر توجہ دیں نہ کہ ظاہری علامات پہ
یہ بات بھی زیر نظر رکھنی چاہئے کہ ذمہ داریوں کے ساتھ ملازمین کے حقوق ہوتے ہیں انکا عزت نفس ہوتا ہے جسمیں مادی شرایط جیسا کہ مناسب تنخواہ اور سہولیات اور انسانی اور نفسیاتی عوامل مثلا عزت اور وقار کے ساتھ اپنے کام کی انجام دہی دونوں شامل ہیں جسطرح سب لوگ بشمول آپ لوگوں کے عزت نفس کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں اسطرح یونیورسٹی کے ملازمین بھی چاہتے ہیں اگر آپ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچوں کو پڑھایا جاے خواہ اساتذہ کو یہ کام کن حالات میں کرنا پڑے تو یہ انصاف پر مبنی نہیں ہوگا پہلے سے نوکر شاہی اور موجودہ وایس چانسلر یونیورسٹی کو ایک شخصی سکول private school میں تبدیل کرنا چاہتا ہے جسمیں کم سے کم سہولیات پر زیادہ سے زیادہ کام لیا جائے گا اور اساتذہ اور دوسرے ملازمین عارضی اور یومیہ اجرت کے بنیاد پر بھرتی گے نتیجہ یہ ہوگا کہ قابل اور اہلیت کے حامل اساتذہ بھاگ جائیں گے نا مساعد حالات کو دیکھ کر کئی پہلے سے بھاگنے کی کوشش کررہے ہیں اسلئے آپ کو ذمہ داری ہے کہ اس مسلے کو صحیح سمجھیں اور اس مسلے کے حل میں صحیح کردار ادا کریں تاکہ یونیورسٹی کا معیار برقرار رہے اور ملازمین کے حقوق بھی قائم رہیں